انگریزوں کا نظام جاسوسی

برصغیر کے انگریز حکمرانوں کا جاسوسی کا نظام اور مشہور ادیب ،شاعر مولانامحمد حسین آزاد
برصغیر پر انگریزوں نے قبضہ کرنے کے بعد اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے سراغرسانی کے شعبے کا سہارا لیا انہوں نے تمام برصغیر میں ایک مضبوط نظام قائم کیا ہوا تھا 1857 کی آزادی کی تحریک کو وہ اسی لئے کچلنے میں کامیاب ہوئے کے ان کے مخالفین اور تحریک آزادی کے مجاہدین نے سراغرسانی کے شعبے کی جانب نہ ہونے کے برابر توجے دی تھی جب کہ انگریزوں کے پاس مضبوط ترین نظام موجود تھا انگریزوں کا قائم کردہ پولیس نظام 1861 میں قائم کیا گیا تھا جس کے قوانین پر پاکستان میں اب تک عمل درآمد کیا جارہا ہے انگریزوں کی جانب سے قائم کردہ جاسوسی کا نظام کئی طرح کا تھا ان کی نو عیت اس طرح کی تھی (1) سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے اس حوالے سے ان کا ٹارگیٹ وہ سیاستدان اور کارکن ہوتے تھے جو کہ آزادی کے لئے جدوجہدکر رہے تھے اس مقصد کے لئے انہوں نے اسپیشل برانچ قائم کی تھی یہ صوبوں کے انگریزگورنروں کے کنٹرول میں تھی یہ 1907 میں قائم کی گئی تھی اس کے زیادہ تر افسران انگریز ہوتے تھے اس کو عرف عام میں CID کے نام سے جانا جاتا ہے مشہور و معروف صحافی اور رائٹر آغا شورش کاشمیری نے اپنی اکثر کتابوں میں اس ادارے کے افسران کا تذکرہ کیا ہے جنہو ں نے آزادی کے مجاہدین کے خلاف انگریز حکمرانوں کی وفا داری میں کاروائیاں کیں تھیں جب کے مرکزی سطح پر اٹیلی جنٹس بیورو کو قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد تمام برصغیر کو کنٹرول کرنا تھا اس کے علاوہ ایک اور ادارہ بھی قائم کیا گیاتھا ملٹری انٹیلی جنٹس بنیادی طور پر یہ ایک قدیم ترین ادارہ ہے جو کہ برطانیہ سے آیا تھا مگر اس کا دائرہ فوج تک ہی محدود رکھا گیا تھا جس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ 1857 کی بغاوت کی ابتدا میرٹھ کی چھاونی سے ہوئی تھی اگرچے کہ ملٹری انٹیلی جنٹس ان حدود کے علاوہ بھی فرائض انجام دیتی تھی یہ بات واضح رہے کہ ان انگریزاداروں کا دائیرہ برصغیر تک ہی محدود نہ تھا بلکہ برصغیر کے باہر بھی قائم تھا کیونکہ وہ جانتے تھے برصغیر پر قبضہ قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ برصغیر کے شمال مغربی سرحد پر برطانوی افواج کا مضبوط قبضہ ہو اس کے ساتھ اس کو مکمل طور پر اس خطے کے بارے میں آگاہی ہو اس مقصد کے لئے برطانوی حکومت نے وسطی ایشیا کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے خفیہ وفد روانہ کئے جو کہ وسطی ایشیا کے حالات کا جائزہ لے کر اپنی جائزہ رپورٹیں کلکتہ ( اس وقت انگریزوں کا دارلسلطنت کلکتہ تھا)میں بیٹھے انگریز حکمرانوں کو روانہ کرتے رہتے تھے ۔ ڈبیلو ڈبیلو ہنٹر نے بھی اپنی کتاب ہمارے ہندوستانی مسلمان میں صوبہ بہار کے اندر آزادی کے مجاہدین اور سید شہید احمد کی تحریک کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کی روداد لکھی ہے۔
مشہور ادیب اور انشا پرداز اور آب حیات کے مصنف مولانامحمد حسین آزاد نے1865 میں انگریز حکمرانوں کی ہدایت پر وسطی ایشیا کا دورہ کیا تھا یہ خفیہ دورہ تھا اس دورے کے دوران انہوں نے اپنا فرضی نام سید بہا الدین رکھا تھا حالانکہ وہ مغل تھے ان کے ساتھ ایک ہندوو کرم چند تھا جس کا تعلق سندھ کے ضلع شکار پور سے تھا دوسر اساتھی پشاور سے تعلق رکھنے والا منشی فیض بخش تھا جب کہ اس خفیہ وفد کا سربراہ تھا دلی کا پنڈت من پھول اس نے ہندو مہاجن کا روپ دھار رکھا تھا اس سفر کے دوران وفدافغانستان ،ترکستان ،قازقستان اور وسطی ایشیا کے مختلف علاقوں میں پہنچا اگست1865 میں شروع ہونے والے اس سفر کا اختتام پندرہ ماہ کے بعد نومبر 1866 میں ہوا جس کے بعد مولوی محمد حسین نے برصغیر آکر اپنی رپورٹ مرتب کرکے متعلقہ حکام کو دی جس کے نتیجے میں ان کاو ظیفہ طے کیا گیا بعد میں ان کو شمس العلما کا خطاب بھی ملا دہلی میں پیدا ہونے والے مولانا محمد حسین آزاد لاہور میں 1910میں وفات پاگئے مولا نا محمد حسین آزاد کے بعد بھی بہت سے جاسوس وسطی ایشیا اور دیگر ممالک روانہ کئے جاتے رہے ہیں

کتاب  شریف خاندان نے پاکستان کیسے لوٹا:
 اب آپ کے اپنے شہر میں مندرجہ زیل  بک اسٹورز پر دستیاب ہیں 
کراچی ویلکم بک اردو بازار  ایم اے جناح روڈ
لاہور۔۔۔۔۔ مکتبہ تعمیر انسانیت ۔ اردو بازار 
لاہور۔۔۔۔۔ بک ہوم  اردو بازار
لاہور۔۔۔۔۔حق پبلیکیشن مزنگ روڈ
براہ راست حاصل کرنے کے لیئے  رابطہ قائم کریں
092-03452104458
092-03062296626

مندرجہ زیل معلوماتی ویب سائٹس ملاحظہ کیجیے

نواز شریف اور ان کے خاندان کے کارناموں کی تفصیلات ملاحظہ کیجیے

NAWAZ SHARIF RAIWIND
Address:  sharifpalace.blogspot.com
 پاکستان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے لیے دیکھیے
 Address:.pakistan-research.blogspot.comپاکستان کے دفاعی اداروں کے بارے میں جانیے
ISI Pakistan Inter-Services Address
isi-pakistan-research.blogspot.com
برادراسلامی ملک متحدہ عرب امارات کے بارے میں جاننے کے لیئے دیکھیے
Address: uae search.blogspot.com