Col Lawrance Of Arabia

 کرنل لارنس آف عربیہ

T.E. Lawrence, 1919
تھامس ایڈورڈ لارنس
 یا کرنل ٹی ای لارنس
 عرف کرنل لارنس آف عربیہ
 برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 
کرنل لارنس آف عربیہ نے پہلی جنگ عظیم  سے قبل اور پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکی کے خلاف عرب بغاوت میں  برطانیہ کے مفادات کی خاطر اہم ترین کردار ادا کیا تھا


پستہ قامت سنہری بال  نیلی آنکھوں والے
ویلز شہر میں کرنل لارنس آف عربیہ کا آبائی گھر
   تھامس ایڈورڈ لارنس یا کرنل ٹی ای لارنس عرف کرنل لارنس آف عربیہ 16 اگست1888 میں ویلز برطانیہ میں پیدا ہوا  دوران تعلیم ہی وہ تحقیق اور تفتیش کے حوالےسے اپنے اساتزہ اور ارد گردکے اہم افراد کی نگاہ میں آگیا تھا  کرنل لارنس آف عربیہ نے دوران تعلیم شام اور عرب علاقوں میں بہ سا وقت گزارا 1909 میں لارنس آف عربیہ پہلی بار شام پہنچا
جس کے باعث وہ عربی دیگر عربوں سے زیادہ بہت انداز میں بولنے لگا  اس کے علاوہ مقامی دیگر زبانوں  سے بھی بہت اچھی طرح سے واقف ہو گیا۔

ترکی کے خلاف مکہ کے شریف حسین کی بغاوت اور کرنل لارنس آف عربیہ
پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی کرنل لارنس آف عربیہ ترکی کے خلاف عرب علاقوں میں اپنے بہت سے حامی پیدا کرچکا تھا جس کے باعث کرنل لارنس آف عربیہ   کو جب برطانوی حکومت کی جانب سے یہ ٹاسک ملا  کہ عربوں کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر دیا جائے تو اس نے یہ کام باآسانی کردیا 

اصل نام سید حسین ابن علی ہاشمی ۔
 یہ رسول پاک صلعم کے خاندان سے تھا 
 اس وجہ سے 1908ء میں شریف مکہ
 کا اعزاز حاصل کیا۔
پہلی جنگ عظیم میں جب انگریزوں کو ترکوں کے
خلاف کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی
  لارنس آف عریبیہ کے ساتھ مل کر اس نے
 خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی
 جس کے
 نتیجے کے طور پر ترکوں کو
شکست ہوئی۔
اسکے ایک بیٹے امیر فیصل کو عراق
 کا بادشاہ بنا دیا گیا
 اور ایک کو اردن کا۔ 1924ء میں
نجد کے فرمانروا ابن سعود سے شکست
 کھا کر تخت سے دست بردار ہوگیا۔

1924
سے1931ء تک قبرص میں جلاوطن رہا۔
اردن کے درالحکومت عمان میں وفات پائی۔
اپنے مزہب اور اپنی قوم سے اس کی
غداری کی سزا عرب اب بھی اسرائیل
 کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
 علامہ اقبال نے اس غداری کو
 ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے:
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی تھا پر دل کا حجازی بن نہ سکاا
 کرنل لارنس آف عربیہ نے اپنے ان مقاصد کی خاطر مکہ کے حکمران شریف حسین مکہ سے رابطہ قائم کیا اس زمانے میں مکہ کے شریف حسین ترکی حکومت کے ایک نائب کی حیثیت سے جزیرۃالعرب کے ایک بڑے حصے کا حکمران تھا  کرنل لارنس آف عربیہ نے مکہ کے شریف حسین کے بیٹے فیصل  سے رابطہ قائم کیا اور  برطانوی حکومت کا پیغام پہنچایا کہ اگر وہ برطانیہ کا ساتھ دیں گے اور انہیں یقین دلایا کہ اگر وہ خلیفہ المسلمین کے خلاف بغاوت کریں گے تو ان کو تمام عرب دنیا کا بادشاہ بنا دیا جائے گا اوراس کے بیٹوں کو ترکی سلطنت کے علیحدہ علیحدہ حصوں کا بادشاہ بنا دیا جائے گا یہ ایک ایسا وعدہ تھا کہ جو انتہائی پر فریب مگر کبھی نہ ہونے والا تھا  اور کرنل لارنس آف عربیہ   یہ  بات بخوبی جانتا تھا کہ اس وعدے پر کبھی بھی برطانوی حکومت عمل نہیں کرے گی مگر اس کے باوجود اس نے مکہ کے حکمران شریف مکہ؛؛ جن کی اس وقت حکومت موجودہ سعودی عرب کے تقریبا نصف پر محیط تھی یعنی مدینہ مکہ اور دیگر اہم عرب علاقے،،  کو بھر پور یقین دیہانی کروائی  کہ خلافت اسلامیہ کی شکست کے بعد تمام عرب علاقوں کا بادشاہ شریف حسین مکہ کو بنا دیا جائے گا
کرنل لارنس آف عربیہ   کے ان وعدوں کے نتیجے میں  عرب دنیا میں ترکوں کے خلاف بغاوت کی ایک لہر پیدا ہو گئی موجودہ  سعودی عرب کے شہر جدہ جس پر اس وقت شریف حسین کا قبضہ تھا وہاں سے لے کر بغداد  او ر شام کے شہر دمشق تک جو ترکی کی خلافت اسلامیہ کا حصہ تھے شریف حسین کے اشاروں پر ترکوں کے خلاف خونی بغاوت کا آغاز ہو گیا  جو کہ جنگ اور افلاس زدہ ترکی کے لیئے انتہائی خطرناک اور بدترین ثابت ہوئے اس بغاوت کے نتیجے میں ترکی کے خلیفہ عبدالحمید کی افواج کو عرب علاقوں میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا یہ ہی نہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکی کی خلافت اسلامیہ کو دنیا کے تمام ہی علاقوں میں  شریف حسین کی غداری کے نتیجے میں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا  اس شکست کے نتیجے میں جہاں ترکی سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا وہیں  عرب دنیا  کی نئی غلامی کا آغاز بھی ہوا اردن عراق پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا  


 شریف مکہ کے بیٹے شاہ فیصل آف عراق
کرنل لارنس آف عربیہ
جن کو شریف حسین کے  کیے گئے معاہدے کے نتیجے
 میں عراق کی حکومت 
انعام میں دی گئی  
       
جب کے شام لبنان اور دیگر عرب علاقے فرانس کو بطور انعام عطا کردئے گئے
مصر برطانیہ کے حوالے کیا گیا لیبیا  اٹلی کو بخشا گیا الجزائیر  تیونس اور مراکش کی حکمرانی فرانس کو دے دی گئی یہ اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی جو کرنل لارنس آف عربیہ نے شریف مکہ کے ساتھ کی تھی شریف مکہ نے برطانوی حکومت  سے اور کرنل لارنس آف عربیہ  سے اس معاہدے کے حوالے سے بے انتہا احتجاج کیا مگر اس کے باوجود شریف مکہ کی ایک نہ سنی گئی  یو ں شریف مکہ کا خواب  چکنا چور ہوگیا 
البتہ عراق کی حکومت اور اردن کی حکومت شریف حسین کے بچوں کو دی گئی

کرنل لارنس آف عربیہ اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ حسین
  کے داد شاہ عبداللہ کے ہمراہ
  عراق کی حکومت جلد ہی برطانیہ کےاشارے پر کیئے جانے والے احتجاجوں کی بنیاد پر شریف مکہ کے بچوں سے لے لی گئی البتہ اردن پر آج بھِی شریف حسین کے بچوں ہی کی حکمرانی ہے اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ حسین شریف مکہ کے پر پوتے ہیں 
 کرنل لارنس آف عربیہ کا مشن صرف عرب دنیا میں ہی ختم نہِں ہوا بلکہ اس کے بعد اس  کو برصغیر پاک و ہند میں خصوصی اختیارات کے ساتھ بھیجا گیا
کرنل لارنس آف عربیہ کراچی میں  
کرنل لارنس آف عربیہ سب سے پہلے کراچی میں آیا جہاں پر اس وقت کی موجودہ شاہراہ فیصل اور سابقہ ڈرگ روڈ  کے  سابقہ ڈرگ بیس اور موجودہ فیصل بیس پر ایک انجینیر کی حیثیت سے رہا  یہ فیصل بیس برصغیر کا سب سے پہلا ہوائی اڈہ ہےجہاں برطانوی شاہی ہوائی فورس کا مرکز قائم کیاگیا۔
 یہاں اس نے اپنے مشن کی خاطر اپنا نیا نام شا رکھا جو کہ برطانوی مفکر برنارڈ شا سے متاثر ہو کر رکھا گیا تھا یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جب کرنل لارنس آف عربیہ اپنے مشن کی خاطر صوبہ سرحد یا موجودہ پختوانخواہ  کے سرحدی شہر میران شاہ پہنچا تو اس نے اپنے نام کے ساتھ شا لگایا  اس سے مسلمان عوام کو یہ تاثر دیا گیا ۔گو یا کہ کرنل لارنس آف عربیہ آل رسول ہے  
 
کرنل لارنس آف عربیہ  کراچی میں رہنے کے  بعد رسال پور چھاونی کے ہوائی اڈے پر ایک سال تک رہا
پاکستان کے ان علاقوں میں کرنل لارنس آف عربیہ نے اپنے آپ کو شا کے طور پر متعارف کرایا یہاں اس نے پشتو زبان
 بھی سیکھ لی  
کرنل لارنس آف عربیہ میراں شاہ میں
 افغان حکمران غازی امان اللہ خان کے خلاف بغاوت کی مہم
کرنل لارنس آف عربیہ پاکستان کو صوبہ پختوانخواہ کے  سرحدی شہر میران شاہ بھیجا گیا یہ بات واضح رہے کہ اس دور میں بھی میراں شاہ کو افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر اہم ترین شہر کی حیثیت حاصل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل لارنس آف عربیہ نے  سید کریم شاہ کا نام اختیار کرکے

 پاکستان کے نقشے میں میران شاہ شہر
 مسلمان عالم  حیثیت سے رہائش اختیار کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ وہ عربی اور فارسی  زبانوں سے بخوبی واقف تھا  اس لیے  اس نے برصغیر کے اس دور افتادہ اور پسماندہ شہر میراں شاہ میں با آسانی ایک سید پیر کی حیثیت سے پذیرائی حاصل کرگیا 
میران شاہ میں لارنس آف عربیہ نے افغانستان کے
میران شاہ شہر میں قبائیلیوں کا اجتماع

 اس وقت کے بادشاہ غازی امان اللہ خان کے خلاف مہم کا آغاز کیا  امان اللہ خان کی پالیسیوں کے خلاف  لارنس آف عربیہ نے بے شمار طرح کے پروپیگنڈے کیئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ امان اللہ خان نے اسلام کے خلاف زندگی بسر کرنا شروع کردی ہے اس نے امان اللہ خان کے خلاف مخالفین کو درپردی اکسایا
کرنل لارنس نے عوام میں اپنی روحانیت کا سکہ بٹھانے کے لیئے کئی طرح کے حربے اختیار کیئے ایک جانب تو وہ عوام کے سامنے ہمیشہ ہی عربی لباس میں سامنے آتا  دوسری جانب اس نے اپنے ایسے کارندے چھوڑ رکھے تھے جو اس کو تمام  اطلاعات فراہم کرتے رہتے تھے
کسی خان سے وہ اس کی پریشانیوں کے بارے میں دریافت کرتا اور پھر اس کو بتاتا کے فلاں وقت فلاں پہاڑ کی چوٹی پر  وہ اس طرح کا وظیفہ پڑھے اور وضیفہ پڑھنے کے بعد  اتنے قدم پر چلنے کے بعد زمین کھودے تو تم کو روپیہ مل  جائے گا  چناچے وہ خان ایسا ہی کرتا جس کے نتیجے میں اس خان کو زمین میں سے اس وقت کے چار پانچ ہزار روپے مل جاتے اور وہ خان لارنس آف عربیہ کو پیر کامل سمجھ اس کے کہنے پر عمل کرتا

کرنل لارنس عربی لباس پہن کر اور عربی اور پشتو میں تقریر کرتے ہوئے
جگہ جگہ وعظ کرنے لگا
کم علم عوام کی اکثریت کو وہ قران کی آیات پڑھ کر سناتا اس کے ساتھ ملکہ افغانستان ملکہ ثریا کی ایسی تصاویر بانٹتا جو کہ جعلی و فوٹوگرافی کی مہارت کے ساتھ یعنی سر ملکہ کا اور ڈھڑ کسی دوسری فحاشہ عورت کا جوڑ کر بہادر اور غیور پختوں بھایوں اور افغانیوں کے سامنے پیش کرتا  ان تصاویر پر جو  موجودہ بھارتی شہر امرتسر میں شائع کی گئیں تھیں اس کے علاوہ وہ اپنی تقاریر میں بادشاہ امان اللہ خان پر الزام بھی عائد کرتا کے وہ روس  جا کر بے دین ہوگیا ہے اور کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر کافر ہوگیا ہے اس پروپیگنڈے اور ملکہ کی اس طرح کی تصاویر پر  
   ان کم علم مسلمانوں کا بھڑکنا لازمی تھاجس پر افغانستان کے اس وقت کے بادشاہ غازی امان اللہ خان کے خلاف افغانستان میں بغاوت ہو گئی اور غازی امان اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا 
جاری ہے





کرنل لارنس آف عربیہ  اور کشمیر

T.E. Lawrence, 1919
مشہور و معروف کردار کرنل لارنس آف عربیہ نے اپنے مشن کی خاطر برصغیر میں وقت گزارا تھا کہا جاتا ہے کہ اس دورن وہ مسلمان عالم کے بھیس میں کراچی رسال پور اور موجودہ صوبہ پختونخواہ کے سرحدی شہر میراں شاہ میں اامرتسراور کشمیر میں ایک سید عالم کا روپ دھار کر 
مقیم رہا


کرنل لارنس آف عربیہ اور علامہ اقبال اور کشمیر کے شیخ عبداللہ کی بیگم اکبر جہان اور فاروق عبداللہ 

کراچی رسال پور اور میران شاہ میں تو کرنل لارنس آف
عربیہ کو کوئی پہچان نہ پایا
مگر امرتسر شہر اور کشمیر میں  علامہ اقبال نے اس کو پہچان کر اس کے خلاف مہم چلوائی۔

 اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک کشمیری عورت جس کا نام اکبر جہاں  تھاسے شادی کر لی تھی مگر بعد میں اکبر جہاں  کے اہل خانہ نے پہچان کر اپنی لڑکی کو کرنل لارنس آف عربیہ سے طلاق دلوائی بعد میں مشہور کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے ان خاتون سے شادی کر لی تھی
مشہور تاریخ دان اور سیاستدان طارق علی جو لندن میں مقیم رہے نے انکشاف کیا تھا کہ اکبر جہان نامی خاتون نے جس عرب کرم شاہ سے شادی کی تھی وہ دراصل کرنل لارنس آف عربیہ ہی تھا کرنل لارنس آف عربیہ نے کر م شاہ کا  نام اختیار کرکے کشمیر اور دیگر علاقوں میں رہائش اختیار کی تھی 
یہ ہی وجہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے بڑے بیٹے\
  اور کشمیری رہنما فاروق عبداللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کرنل لارنس آف عربیہ کے بیٹے ہیں کیونکہ ان میں بعض افراد کی رائے کے مطابق کرنل لارنس
آف عربیہ کی شباہت آتی ہے ۔
ملاحظہ کیجیے کرنل لارنس آف عربیہ کی تصویر
ملاحظہ کیجیے کرنل لارنس آف عربیہ کی تصویر

ملاحظہ کیجیے شیخ فاروق عبداللہ کی تصویر
ملاحظہ کیجیے شیخ عبداللہ  کی تصویر






 کرنل لارنس آف عربیہ کی مزید تصویر





















اور اب فیصلہ کیجیے کہ فاروق عبداللہ کس سے زیادہ ملتے ہیں